دنیا میں 3 بڑے ممالک عالمی سیاسی منظر نامے میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنےمیں سرگرداں، یہ 3 ممالک چین ، روس اور امریکہ ہیں ، ان 3 ممالک سے 2 میں یعنی چین ، روس میں کلی طور پر خود مختار آمرانہ طرز حکومت ہے ، جبکہ امریکہ میں احتساب پر مبنی جمہوری طرز حکومت ہے –عام نظر دیکھنے سے چین اور روس میں کمیونسٹ نظریات پر مبنی ایک طرح کا ہی نظام حکومت ہے ، لیکن اگر غور سے دونوں ممالک کے گورننگ فارمیشن کو دیکھا جائے تو پھر دونوں ممالک میں حکومتیں بنانے ، حکومتیں چلانے میں بڑا فرق ہے ، روس میں صدر پوٹیین اور اس کی حکومت ایک انتخابی عمل (جعلی انتخابات ) کے تحت فورم کی گئ، جبکہ چین میں شی جن پنگ ایک مخصوص طبقے کی حمایت سے بغیر کسی انتخابی عمل کے ملک کے صدر بنے اور حکومت بنائی –
چین اور روس میں مختلف طریقے کار سے حکومتیں بننے کے باوجود دونوں ممالک آمرانہ طرز حکومت ، آمرانہ رویوں کو فروغ دینے کے ساتھ انسانی سوچ کو کنٹرول کرنے پر ایک جیسے ہیں ، انہی نظریات کو پروان چڑھانے میں دونوں ممالک مغربی جمہوری روایات ، مغربی یورپ ، امریکی طرز حکومت کو اپنی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں –
چین اور روس عالمی سیاسی منظر نامے میں اپنے لیے بڑا کردار حاصل کرنے کے لیے مختلف طریقے سے دنیا کے ہر کونے میں امریکہ و یورپ سے مقابلہ کرنے کے لیے مختلف راستے اختیار کر رہے ہیں ، چین پہلے خود معاشی و علمی طور پر مضبوط ہو کر عالمی سیاسی و معاشی منظر نامے میں بڑا کردار حاصل کرنا کی کوششوں میں مصروف، جبکہ روس نہ معاشی طاقت رکھتا ہے ،نہ ہی سیاسی ، نہ علمی طور پر مضبوط ہے ،انہی اپنی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے روس دوسرے ممالک کو کمزور کرنے کی حکمت عملی پر گامزن ہے ، اس لیے روس اکثر اپنے ہمسائے ممالک پر کبھی برائے راست کھلی جارحیت کر کے دخل اندازی کرتا ہے ، کبھی اپنے وسیع جاسوسی نیٹ ورک سے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں اثر انداز ہوتا ہے –
چین اور روس کی انہی خارجی معاملات کی سرگرمیوں کی وجہ سے خارجی معاملات پر عبور رکھنے والے دنیا کے بڑے محققین ، دانشور عالمی سیاسی منظر نامے میں چین کو صاف ستھرا حصہ دار گردانتے ہیں ،جبکہ روس کو گھٹیا، گندا حصہ دار کہا جا رہا ہے –
چین ، روس عالمی سیاسی منظر نامے میں مختلف قسم کے حصہ دار ہونے کے باوجود دونوں ممالک قوم پرست بیانیے پر متفق ہیں ، دونوں ممالک گریٹر چین اور گریٹر روس کا نظریے پر کام کررہے ہیں، روس کی موجودہ آمر حکومت اپنے ماضی کو دوبارہ بام عروج پر لے کر آنا چاہتی ہے ، جس میں روس کو ایک عیسائی مذہبی روحانی ریاست قرار دیا گیا تھا ، جس کا بڑا مقصد یہ تھا کہ ساری دنیا روسی عیسائی مذہبی روحانی حکومت کے تحت ہو ، دوسری طرف چین صدر شی جن پنگ کے نظریے کے مطابق آنے والے وقت میں گریٹر چین خواب کو حاصل کرنے کے لیے ساری دنیا کو چین کے معاشی ، مواصلاتی رسی کے تابع بنانا ہے ، انہی بڑے مقاصد کو پانے کے لیے چین ، روس انسانی بنیادی حقوق ، انسانی بنیادی آزادیاں، انسانی سوچ کو کوئی اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں ، دونوں ممالک کے فیصلہ سازوں کے خیال کے مطابق انفرادی ، شخصی آزادی کی اتنی اہمیت نہیں، بلکہ سب سے اہم نقطہ یہ ہے کہ کس طرح ایک مضبوط سنٹرل اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ، جس کے تحت ملکی آبادی کو کنٹرول کیا جا سکے ، کیونکہ کسی بھی سنٹرل کنٹرول کے بغیر انسانی آزادی ، انفرادی سوچ نت نئے آیئڈز کو جنم دیتی ہے ، جس سے معاشرے کو ، حکومت کو تبدیل کرنے میں نئے گروپ سر اٹھانا شروع کر دیتے ہیں ، جس سے ملکوں میں بدامنی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور ترقی کا عمل رک جاتا ہے –
چین اور روس اسی نظریے کی وجہ سے عالمی سیاسی منظر نامے میں مغربی یورپ ، امریکی نظام حکومت میں جمہوری روایات ، شخصی آزادی، انفرادی سوچ کو اپنے ہاں رائج کرنے سے خائف رہتے ہیں ، بلکہ دونوں ممالک کے نزدیک مغربی یورپ اور امریکی معاشرے بغیر کسی مضبوط نظریے کے تحت چل رہے ہیں ، اسی لیے چین ، روس چاہتے ہیں کہ دنیا کے انسانوں کو نظریاتی منشور ، ڈسپلن کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے میں ان دونوں ممالک نے اپنا کردار ادا کرنا ہے –
دوسری طرف امریکی اور مغربی دانشوروں کے خیال کے مطابق آج کی دنیا کی ترقی ، نت نئی ٹیکنالوجی ، نئے نئے علم آزادی سوچ کی بدولت ہے ، اس لیے وہ کسی بھی آمرانہ نظام اور آمر حکومتوں کا عالمی سیاسی منظر نامے میں کردار کم کرنے کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں ، ساتھ ہی امریکہ ، مغربی یورپ کی حکومتیں اپنے ہاں رائج جمہوری روایات، شخصی آزادیوں کی حفاظت کے لیے تیسری عالمی جنگ میں جانے کے لیے بھی تیار ہیں –